‫‫کیٹیگری‬ :
16 February 2019 - 10:54
News ID: 439777
فونت
بن سلمان کے دورے سے پاکستانی قوم تقسیم ہو رہی ہے، یہ وہی تقسیم ہے جس نے ماضی میں فرقہ واریت کو جنم دیا تھا اور تکفیریت نے سر اٹھا لیا تھا، ماضی میں ہونیوالی قتل و غارت کا اڈا بھی ریاض تھا۔

تحریر: ابوفجر لاہوری

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورے کیلئے پاکستانی حکومت دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ پوری حکومتی مشینری اس کام میں جت چکی ہے کہ کوئی کمی نہ رہ جائے، جبکہ ایک حلقہ سعودی ولی عہد کے پاکستان آنے پر سراپا احتجاج ہے۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں جبکہ اسلام آباد کو آج سے ہی مکمل طور پر جام کر دیا گیا ہے۔ حکومتِ پاکستان اس کوشش میں ہے کہ معزز مہمان کیلئے کوئی چیز رہ نہ جائے اور مہمان ناراض نہ ہو جائے جبکہ مہمان نے تو میزبان کی آنے سے پہلے ہی ’’اوقات‘‘ بے نقاب کر دی ہے۔ معزز مہمان اتنے متکبر ہیں کہ انہیں بیٹھنے کیلئے میزبان کے صوفے تک پسند نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے صوفے اور ورزش کا سامان بھی ساتھ لائے ہیں۔ دنیا میں یہ پہلا مہمان ہے، جو اتنے تکبر کے ساتھ آرہا ہے اور دنیا میں یہ پہلا میزبان ہے، جو اتنی زیادہ تضحیک کے باوجود ذرہ بھر بھی شرمندہ نہیں ہو رہا۔

’’تحریک حمایت مظلومین جہاں‘‘ نامی جماعت نے ملک بھر میں سعودی ولی عہد کیخلاف مظاہروں کا اعلان کیا۔ تحریک کی جانب سے کہا گیا کہ آنیوالا مہمان یمنیوں کا قاتل ہے۔ اس کے ہاتھ صحافی جمال خاشقجی کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جبکہ بحرین ہو یا شام، اسی شہزادے کے باعث وہاں آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ سعودی شہزادے کے دورے کیخلاف لاہور سمیت بعض شہروں میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ متعدد شہروں میں گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں۔ سرگودھا، سکھر، کراچی، راولپنڈی سمیت دیگر شہروں سے اطلاعات ہیں کہ متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ وہ حکومت جو خود سوشل میڈیا کا ’’رن وے‘‘ استعمال کرکے اقتدار کے آسمان تک پرواز کے قابل ہوئی ہے، اُسی حکومت نے احتجاج کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ سوشل میڈیا پر ٹویٹر اور فیس بک اکاونٹس بلاک کر دیئے گئے ہیں جبکہ ان کے ہینڈلرز کو ٹیلی فونز کرکے ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے لاہور پریس کلب کے باہر ہونیوالے مظاہرے کا اہتمام تحریک حمایت مظلومین جہاں نے کیا تھا۔ جس سے خطاب میں مقررین نے اس حکومتی اقدام کی پرزور مذمت کی ہے۔ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدامات سے آمریت بھی شرما گئی ہے۔ یہ حکومت خود برسوں احتجاج کرتی رہی ہے اور آج ہم نے احتجاج کیا تو یہ غیر قانونی ہوگیا۔ دوسری جانب طلبہ تنظیم آئی ایس او نے بھی اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں پر بڑے پیمانے پر احتجاج کی دھمکی دیدی ہے۔ موجود حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے، اسے احتجاجوں کا ہی سامنا ہے۔ اوپر سے بیوروکریسی میں بیٹھے حکومت کے ’’شاہ سے زیادہ وفاداروں‘‘ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس میں واضح طور پر شیعہ قوم کو نامزد کر دیا گیا ہے کہ وہ اس دورے کے موقع پر احتجاج کر رہی ہے۔ حالانکہ تحریک حمایت مظلومین جہاں کوئی شیعہ جماعت نہیں بلکہ اس میں دیگر مسالک کے رہنما بھی شامل ہیں، مگر محکمہ داخلہ نے نوٹیفکیشن میں شیعہ قوم کو نامزد کرکے اسے مزید مشتعل کرنے اور حکومت سے لڑانے کی کوشش کی ہے۔

اس حوالے سے حکومتی اداروں کو تحقیقات کرنی چاہیئں کہ شیعہ قوم کو بالخصوص اس نوٹیفکیشن میں ہدف کیوں بنایا گیا ہے۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ماضی میں تحریک لبیک کو احتجاج پر مسلم لیگ نون کی جانب سے اُکسایا گیا تھا، تاکہ حکومت کو ٹف ٹائم دیا جائے، مگر اب دیکھنا ہوگا کہ موجودہ مظاہروں کو اکسانے والے حکومتی صفوں میں کون ہیں؟ حکومت کو اس بات کا پتہ لگانا ہوگا کہ محکمہ داخلہ سمیت بیوروکریسی میں ایسے کون سے لوگ ہیں، جو ہر موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور قوم کو مشتعل کرکے حکومت سے لڑوا دیتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندی، پیجز بلاک کرنے کے اقدامات اور احتجاج سے روکنے کیلئے کارکنوں کی گرفتاریاں حکومتی بقاء کیلئے ’’مضر‘‘ ثابت ہوسکتی ہیں۔ ایک شیعہ رہنما کا کہنا ہے کہ ایک پُرامن قوم کو اس طرح اشتعال نہ دلایا جائے کہ وہ قانون ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جائے۔ اس حوالے سے حکومت کو غور کرنا ہوگا۔

دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک قاتل کو پاکستان کے دورے کے دعوت دے کر حکومت سمجھ رہی ہے کہ دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی، تو حضور خاطر جمع رکھیئے، یہ نئی نہریں بہانے نہیں بلکہ سی پیک کی نہر کو خشک کرنے کیلئے مابدولت قدم رنجا فرما رہے ہیں۔ یہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ آرہا ہے، جو پاکستان میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کسی طور پسند نہیں کرتا اور اس دورے کا مقصد بھی یہی ہے کہ چین کی جگہ کسی اور کو آگے کر دیا جائے۔ دوسرا سب سے بڑا نقصان اس دورے کا یہ ہونے جا رہا ہے کہ پاکستانی قوم تقسیم ہو رہی ہے۔ یہ وہی تقسیم ہے، جس نے ماضی میں فرقہ واریت کو جنم دیا تھا اور تکفیریت نے سر اُٹھا لیا تھا۔ ماضی میں ہونیوالی قتل و غارت کا "کھرا" بھی ریاض جا پہنچا تھا اور اب ایک بار پھر وہی ’’گبر سنگھ‘‘ بچوں کو ڈرانے آرہا ہے۔ کیا ہمارا ملک ایک بار پھر دہشتگردی کا متحمل ہوسکے گا؟ اگر نہیں تو حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئں اور قاتل کا استقبال نہیں کرنا چاہیئے۔/۹۸۸/ ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬